دہشت ناک رات: گاؤں کی سرگوشی

Horror all age range 2000 to 5000 words Urdu

Story Content

گاؤں کا نام گلستان پور تھا۔ گلستان پور ایک چھوٹا سا، پرانا گاؤں تھا، جہاں ہر طرف سرسبز کھیت تھے اور دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا۔ لیکن گلستان پور کی خوبصورتی کے پیچھے ایک خوفناک راز چھپا ہوا تھا۔ گاؤں کے لوگ اکثر راتوں کو عجیب و غریب آوازیں سننے کی شکایت کرتے تھے۔
گاؤں کے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ یہ آوازیں اُن لوگوں کی ہیں جو یہاں مر کر دفن ہو چکے ہیں اور اب اُن کی روحیں بھٹک رہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ گلستان پور کے قبرستان میں کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو مرنے والوں کو سکون سے نہیں رہنے دیتیں۔
اس گاؤں میں ساجد نام کا ایک نوجوان رہتا تھا۔ وہ ایک بہادر اور نڈر لڑکا تھا اور اُسے ان تمام باتوں پر یقین نہیں تھا۔ ساجد ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ ان قصوں پر ہنسا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ سب لوگوں کا وہم ہے۔
ایک دن، ساجد اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود قبرستان جا کر دیکھیں گے کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ اُنھوں نے رات کے وقت قبرستان جانے کا منصوبہ بنایا۔
جب رات ہوئی تو ساجد اور اس کے دوست گلستان پور کے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور چاند بھی نہیں نکلا تھا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ قبرستان کے قریب پہنچ کر اُن سب کے دل دھڑکنے لگے۔
جیسے ہی وہ قبرستان کے اندر داخل ہوئے، اُنھیں سردی کا احساس ہوا۔ ایک عجیب سی ہوا چل رہی تھی جو اُن کے جسموں سے ٹکرا رہی تھی۔ قبروں کے اوپر لگے ہوئے پتھر بھیانک لگ رہے تھے۔
اچانک، اُنھوں نے ایک آواز سنی۔ یہ ایک درد بھری چیخ تھی جو اُنھیں بہت قریب سے سنائی دے رہی تھی۔ سب دوست ڈر گئے اور ایک دوسرے کو پکڑ لیا۔
ساجد، جو ابھی تک بہادر بنا ہوا تھا، نے کہا، "مت ڈرو۔ یہ کوئی جانور ہو گا۔"
لیکن پھر اُنھوں نے ایک اور آواز سنی۔ یہ ایک عورت کی آواز تھی جو رو رہی تھی۔ اس بار آواز پہلے سے زیادہ قریب تھی۔
اُنھوں نے ایک قبر کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک عورت بیٹھی رو رہی تھی۔ اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ اس نے اپنے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
ساجد نے آگے بڑھ کر کہا، "بی بی، کیا ہوا؟ آپ کیوں رو رہی ہیں؟"
عورت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بس روتی رہی۔
ساجد نے دوبارہ پوچھا، "بی بی، ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔"
عورت نے اپنا سر اٹھایا۔ اس کا چہرہ سفید تھا اور اس کی آنکھیں خون سے لال تھیں۔ وہ ساجد اور اس کے دوستوں کی طرف گھوری سے دیکھنے لگی۔
اُس نے ایک خوفناک چیخ ماری اور ساجد اور اس کے دوستوں پر جھپٹ پڑی۔
ساجد اور اس کے دوست ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ وہ بھاگنا چاہتے تھے لیکن اُن کے پاؤں جیسے زمین میں جم گئے ہوں۔
عورت نے اُن میں سے ایک دوست کو پکڑ لیا اور اس کا گلا دبا دیا۔
ساجد اور اس کے باقی دوستوں نے کسی طرح اپنے آپ کو چھڑایا اور قبرستان سے بھاگ گئے۔
وہ سیدھے گاؤں میں گئے اور لوگوں کو بتایا کہ قبرستان میں کیا ہوا تھا۔
لیکن کسی نے اُن کی بات پر یقین نہیں کیا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ ڈر گئے تھے اور اُنھیں وہم ہوا تھا۔
اگلی صبح، جب وہ قبرستان میں واپس گئے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ قبر خالی تھی اور اس کے آس پاس کوئی نشان نہیں تھے۔
وہ دوست جس پر عورت نے حملہ کیا تھا، وہ بھی بالکل ٹھیک تھا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
لیکن ساجد اور اس کے دوست جانتے تھے کہ انھوں نے جو دیکھا تھا، وہ سچ تھا۔ گلستان پور کا قبرستان واقعی آسیب زدہ تھا۔
اُس دن کے بعد سے ساجد اور اس کے دوستوں نے کبھی بھی قبرستان جانے کی جرات نہیں کی۔ وہ ہمیشہ گلستان پور کے راز کو یاد رکھتے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور لوگ اس واقعے کو بھول گئے۔ لیکن ساجد نے کبھی نہیں بھلایا۔ وہ ہمیشہ گلستان پور کی دہشت ناک رات کو یاد رکھتا تھا۔ اُسے ہمیشہ وہ عورت یاد رہتی تھی جو قبرستان میں رو رہی تھی۔ اُسے ہمیشہ اس خوف کا احساس رہتا تھا جو اس رات اس نے محسوس کیا تھا۔
گلستان پور آج بھی موجود ہے۔ لیکن اب کوئی بھی رات کے وقت قبرستان کے قریب نہیں جاتا۔ لوگ اب بھی عجیب و غریب آوازیں سنتے ہیں لیکن وہ ان پر دھیان نہیں دیتے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر انھوں نے ان آوازوں پر دھیان دیا تو وہ بھی اس راز کا حصہ بن جائیں گے جو گلستان پور میں چھپا ہوا ہے۔